Wednesday 28 May 2014

موٹاپا اور بیماری کا خطرہ


طرز زندگی اور صحت سے متعلق دیگر عوامل سے قطع نظر ایک بات حتمی ہے کہ اوسط وزن کے حامل افراد کے مقابلے
میں زیادہ وزن والے افراد کے بیماری کے بعد ہسپتال پہنچنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں

یہ بات ایک نئی آسٹریلوی طبی تحقیق کے باعث سامنے آئی ہے۔ انٹرنیشنل جرنل آف اوبیسیٹی میں شائع شدہ اس تحقیق کے مطابق یہ معاملہ محض بہت زیادہ موٹے افراد کے ساتھ نہیں بلکہ ان افراد کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے جن کا وزن تھوڑا سا بھی زیادہ ہو۔ تحقیق کے مطابق درمیانی عمر کے بالغ افراد کے باڈی ماس انڈیکس BMI میں محض ایک پوائنٹ کا اضافہ جوکہ وزن میں 2.7 سے 3.2 کلوگرام اضافے کو ظاہر کرتا ہے اور hospitalisation کے خدشات کو چار فیصد بڑھا دیتا ہے۔

مشت زنی کے اسباب اور علاج



مشت زنی کے اسباب اور ان کا علاج درج ذیل ہے:
۱۔شادی میں تاخیر
جلق بازی کا پہلا سبب شادی میں تاخیر ہے۔ ایک بچہ ۱۳ یا ۱۴ سال کی عمر میں بالغ ہوجاتا ہے۔ لیکن معاشی اور سماجی مسائل کی بنا پر وہ بلوغت کے ۱۵ یا ۱۶ سال بعد ہی شادی کے قابل ہوتا ہے۔ اس کا علاج جلد از جلد شادی ہے۔ اس موضوع پر ۔” شادی ایک مسئلہ کیوں؟” نامی تحریر سے بھی مدد لی جاسکتی ہےیہ تحریر اس لنک پر موجود ہے۔
اگر شادی کی استطاعت نہ ہو تو حدیث کے مطابق روزے رکھ کر شہوت پر قابو پایا جاسکتا ہے۔
۲۔ بری صحبت
ایک بچہ جب جوان ہوتا ہے تو اس کے ہارمونز میں تبدیلی آتی ہے۔ چنانچہ وہ اس ہیجان کی نوعیت سمجھنےکے لئے اپنے دوستوں سے رجوع کرتا ہے۔ اگر اس کے دوست احباب مشت زنی عریاں فلموں اور اس قبیل کی دیگر خرافات میں ملوث ہوتے ہیں تو وہ اسے بھی ان معاملات میں ملوث کرلیتے ہیں۔ اس کا علاج دو رخی ہے۔ ایک تو ماں باپ بچے کی بلوغت کے وقت اس پر کڑی نظر رکھیں اور اس کے معمولات کو دیکھیں۔ دوسرا یہ کہ اگر کوئی شخص بری صحبت سے بچنا چاہے تو اسے چاہئے کہ فوری طور پر وہ ایسے دوستوں سے قطع تعلق کرلے۔ نعم البدل کے طور پر وہ صالح فطرت لوگوں کی کمپنی تلاش کرے۔

تربوز



بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے خوش خبر ی ہے کہ چھ ہفتے مسلسل تربوز کا استعمال بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔فلوریڈا اسٹیٹ یونیورسٹی کے تحت کی جانے والی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ چھ ہفتے تک تربوز کو مسلسل استعمال کرنے سے بلڈ پریشر کو کم کیا جاسکتا ہے۔ تربوز میں وٹامین اے ، بی 6 اور وٹامین سی کی کثیر تعداد موجود ہوتی ہے جبکہ فائبر ،پوٹاشیم اور پاورفل اینٹی اوکسیڈنٹ کی موجودگی اس کی افادیت میں مزید اضافہ کرتی ہے۔

موسم گرما کی سوغات لسی

موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی دودھ، دہی کا استعمال بھی عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ خاص طور پر دیہاتوں میں اس روایتی قدیم مشروب سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ لسّی ایک ایسا مشروب ہے جو گرمی کی شدت کم کر کے پیاس کو تسکین پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ علاوہ ازیں معدہ و جگر جیسے امراض سے نجات دلانے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ حالات بدلنے کے ساتھ ساتھ ہماری روایات اور طور طریقے بھی تبدیل ہو گئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ گھر آنے والے مہمانوں کی تواضع لسّی یا چھاچھ سے کی جاتی تھی۔ لوگ ناشتے میں اور دوپہر کے کھانے میں لسّی کا استعمال ضروری تصوّر کرتے تھے لیکن آج کل کے دور میں اس روایتی شفاء بخش مشروب کی جگہ مصنوعی طریقوں سے تیار کی جانیوالی کولڈ ڈرنکس نے لے لی ہے۔ اور اب لسّی کو غریبوں کا مشروب تصوّر کیا جانے لگا ہے۔ مغرب کی روایات اپناتے اپناتے ہم بہت سے ایسے مسائل کا شکار ہو چکے ہیں جن کے مضر اثرات ہماری صحت کو تباہ کر رہے ہیں۔ لسّی پینے سے جوصحت بخش فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ان کا جائزہ یہاں پیش کیا جارہا ہے۔
پیٹ کے عوارض

وضو اور جدید سائنس


مغربی ممالک میں مایوسی Depression کا مرض:

مغربی ممالک میں مایوسی یعنی Depression کا مرض ترقی پذیر ہے، دماغ فیل ہورہے ہیں۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین کے یہاں مریضوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ مغربی جرمنی کے ڈپلوما ہولڈر ایک فیصل آبادی فزیوتھراپسٹ کا کہنا ہے کہ مغربی جرمنی میں ایک سیمینار ہوا جس کا موضوع تھا ’’مایوسی Depression کا علاج ادویات کے علاوہ اور کن کن طریقوں سے ممکن ہے؟‘‘ ایک ڈاکٹر نے اپنے مقالے میں یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ میں نے ڈپریشن کے چند مریضوں کے روزانہ پانچ بار منہ دھلائے تو کچھ عرصہ بعد ان کی بیماری ختم ہوگئی۔ پھر ایسے ہی مریضوں کے دوسرے گروپ کے روزانہ پانچ بار ہاتھ، منہ اور پاؤں دھلوائے تو مرض میں بہت افاقہ ہوگیا۔ یہی ڈاکٹر اپنے مقالے میں اعتراف کرتا ہے کہ مسلمانوں میں مایوسی کا مرض کم پایا جاتا ہے کیوں کہ وہ دن میں کئی مرتبہ ہاتھ منہ اور پاؤں دھوتے یعنی وضو کرتے ہیں۔

بانجھ پن.......(Infertility)




جنسی قوت انسان کی افریندہ قوت ہے۔یہ تہذیب وتمدن کی ماں ہے ۔اسی قوت سے نسل انسانی بڑھتی ہے اور اسی قوت سے انسان میں آگے بڑھنے کی صلاحتیں پیداہوتی ہیں۔اس قوت کا نصف حصہ مرد اور نصف حصہ عورت میں ہوتا ہے ۔دونوں تنہا اپنی اپنی جگہ نامکمل ہیں گو ان کی تخلیق تو مکمل ہے لیکن ان کا فعل ایک دوسرے کی مدد کے بغیر ادھورارہ جاتا ہے۔

بھوک پر غذا کھانے کے فوائد


جس طرح تندرست انسان کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھوک پر غذا کھائے اسی طرح مریض کے لئے تو اشد ضروری ہے کہ وہ بغیر شدید بھوک کوئی غذا نہ کھائیں۔ کیونکہ بھوک کی طلب نہ ہونا اس امر کی دلالت کرتا ہے کہ یا تو جسم میں پہلے ہی غذا موجود ہے یا پھر طلب غذا کے عضو میں خرابی ہے اس لئے لازم ہے کہ بغیر بھوک غذا نہ کھائی جائے، کیونکہ بغیر شدید بھوک کھائی ہوئی غذا خمیر بن جاتی ہے جو ایک قسم کا زہر ہوتا ہے جس سے انسان بیمار ہوجاتا ہے۔

1۔ شدید بھوک سے معدہ و انتڑیوں میں پڑا ہو خمیر جل جاتا ہے جس سے ہر قسم کے امراض جسم و خون سے بھاگ جاتے ہیں۔
2۔ شدید بھوک اگر تین دن بھی نہ لگے تو کسی قسم کی غذا نہ کھائیں البتہ چائے قہوہ یا کوئی پھل کھاسکتے ہیں۔
3۔ شدید بھوک سے دوران خون تیز ہوکر پورے جسم سے ہر قسم کے فضلات خارج ہوجاتے ہیں۔
4۔ شدید بھوک پر کھائی ہوئی غذا ہضم ہو کر خون بن جاتی ہے اس کے برعکس بغیر بھوک کھائی ہوئی غذا خمیر بن کر امراض میں اضافہ کردیتی ہے۔
5۔ شدید بھوک بعض امراض سے نجات حاصل کرنے کا بہترین راستہ ہے۔
6۔ ہر شخص کو اپنے مزاج کے مطابق اغذیہ ادویہ استعمال کرنی چاہیے، اگر مزاج کے مخالف استعمال کی گئیں تو نتیجہ امراض کی صورت میں ظاہر ہوگا۔

بغیر ضرورت کھائی ہوئی غذا ضعف پیدا کرتی ہے۔

دنیا میں کوئی غذا یا دوا ایسی نہیں ہے جو انسان کو بلاضرورت اور بلاوجہ طاقت بخشے مثلاً دودھ ایک مقوی غذا سمجھی جاتی ہے۔ لیکن جن لوگوں کے جسم میں بلغم و رطوبات اور ریشہ کی زیادتی ہو ان کے لیے سخت مضر ہے۔ گویا جن لوگوں کے دماغ اور اعصاب میں تحریک و تیزی اور سوزش ہو وہ اگر دودھ کو طاقت کے لئے استعمال کریں گے تو ان کا مرض روز بروز بڑھتا جائے گا اور وہ طاقتور ہونے کی بجائے کمزور ہوتے جائیں گے۔

اسی طرح دوسری مقوی اور مشہور غذا گوشت ہے ہر مزاج کے لوگ اس سے طاقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ایک فاضل حکیم جانتا ہے کہ گوشت کا ایک خاص مزاج ہے۔ اگر کسی انسان کا وہ مزاج نہ ہو تو اسکے لئے مفید ہونے کی بجائے نقصان دہ ہوتا ہے۔ مثلاً جن لوگوں کا بلڈپریشر ہائی ہو ان کو اگر بھنا ہوا گوشت کھلا دیا جائے تو شدید نقصان دے گا۔ اسی طرح جن لوگوں کے جگر و گردوں میں سوزش ہو انکو بھی گوشت طاقت دینے کی بجائے سخت نقصان دے گا۔

اسی طرح مقوی اور مشہور غذا گھی ہے۔ جو اس قدر ضروری ہے کہ تقریباً ہر قسم کی غذا تیار کرنے میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جن لوگوں کو ضعف جگر ہو تو اگر گھی کا استعمال کریں گے تو ان کے ہاتھ پاؤں بلکہ تمام جسم پھول جائے گا، سانس کی تنگی پیدا ہوجائے گی، ایسا انسان بہت جلد مرجائے گا۔

دنیا میں کوئی ایسی دوا مفرد یا مرکب نہیں ہے جس کو بلاوجہ اور بغیر ضرورت استعمال کریں اور وہ طاقت پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ فن علاج کو پیدا ہوئے ہزاروں سال گزر چکے ہیں لیکن ابھی تک کوئی ایسی غذا یا دوا تحقیق نہیں ہوئی جو بلا ضرورت خون پیدا کرے، یا طاقت دے۔

آج کل مارکیٹ میں طب اور ایلوپیتھی کی ہزاروں ادویات ، مقوی، سپیشل ٹانک اور جنزل ٹانک کے ناموں سے فروخت ہورہی ہیں یہ ادویات نہ صرف ہمارے ملک کے کروڑوں روپے برباد کرہی ہیں بلکہ بہت ہی خطرناک امراض پیدا کرنے کا سبب بن رہی ہیں۔
ان ادویات کے بے جا استعمال سے تپ دق، سل، ذیابیطس، ہائی بلڈپریشر، فالج، عصبی امراض وغیرہ اس قدر بڑھ گئے ہیں کہ ہر سال ہزاروں افراد ان میں گرفتار ہوکر مرجاتے ہیں۔
لیکن افسوس ہے کہ ملک کے کسی بھی طریقہ علاج کے معلاج نے ان مقوی پیٹنٹ ادویات کو فوری طور پر بند کرنے کا مشورہ نہیں دیا تاکہ ملک کی دولت اور قوم کی صحت برباد نہ ہو۔

معدہ کے امراض اور ان کا علاج

انسانی جسم ایک خود کار مشین ہے، قدرت نے اس طرز پر بنایا ہے کہ ہر عضو اپنا کردار اور کام اپنی حدود میں بغیر کسی مزاحمت کے کرتا ہے۔ جب انسان اپنی غلطی، غفلت اور مسائل کی وجہ سے ان اعضأ اور جسم کی ضروریات کے مطابق ان کا خیال نہیں رکھتا تو پریشانیاں اور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ معدہ انسانی جسم کا ایک اہم حصہ ہے۔ انسانی جسم میں توانائی، حرکت اور نشو و نما کی بنیادیں اسی میں ہوتی ہیں۔ انسان جو کچھ کھاتا ہے، اسے کھا کر چبانا، ہضم کرنا اور پھر سے جسم انسانی کا حصہ بنانا یہ سب کام معدہ اور اس کے معاون اعضا ہی کرتے ہیں۔ نشاستے، لحمیات، حیاتین اور معدنیات انسان کی خوارک کا حصہ ہیں، ان اجزأ کا ایک فیصد استعمال ہوتا ہے اور باقی ناقابلِ ہضم اجزأ معدہ جسم سے خارج کرتا ہے۔ خوراک ہضم کرنے میں لعاب کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اگر لعاب ٹھیک نہ ہو تو نظامِ انہضام میں خرابیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

اس مضمون میں کوشش ہے کہ اسے عام فہم انداز میں پیش کروں تا کہ ہر پڑھنے والے کو فائدہ پہنچے اور اسے اپنے معدہ کی اصلاح میں مدد ملے۔ معدہ کی تکالیف میں عمومی طور پر ورمِ معدہ، نظامِ ہضم کی خرابیاں، بھوک نہ لگنا، پیٹ میں ریاح ، گیس، تبخیر، انتڑیوں کا سکڑ جانا اور السر یعنی معدہ کے زخم وغیرہ شامل ہیں۔ معدہ کا ورم جب حادّ ہو جائے تو معدہ کا داخلی حصہ اور دیواریں سرخ اور سوجی ہوئی حالت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ، اس سے معدہ کا درد، قے، متلی، سینہ کی جلن سمیت کئی پریشان کن علامات کا ظہور ہوتا رہتا ہے۔ معدہ کی ان بیماریوں کی وجہ سے انسان کا پورا جسم متاثر ہوتا ہے اور مزید کئی بیماریوں کے اسباب پیدا ہوتے ہیں۔ سر کا درد، آدھے سر کا درد، نظر کی کمزوری، جگر کا تازہ خون کی پیدائش روک دینا، ہڈیوں کا درد، گردوں میں خرابیاں، وزن میں کمی، مردوں میں احتلام و جریان، خواتین میں لیکوریا اور ماہواری کی خرابیاں، نیند میں خرابی اور ذہنی انتشا ر و تناؤ۔۔ یہ سب وہ مسائل ہیں جن کا بالواسطہ یا بلاواسطہ معدہ سے لازمی تعلق ہے۔

معدہ کی بیماریوں کے اسباب:

معدہ کی بیماریوں میں معدہ کا ورم اور السر نمایاں ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ فاسٹ فوڈ، غیر مسلم ممالک میں خنزیر جیسے جانور کا حرام گوشت، زیادہ تیل اور گرم کھانا، بازاری اچاری کھانے، سگریٹ نوشی، شراب و الکوحل ، بروقت نہ کھانا، جنسی عمل میں زیادتی، سوئے تغذیہ ( غذائی کمی یا لازمی غذائی اجزاء کا جذب نہ ہونا) عفونت جراثیمی، جیسے کہ ایچ پائلوری انفکشن، آنتوں کی عفونت، نمونیا، مسمومیت غذائی، اینٹی بائیوٹک ادویات کا غلط استعمال، دافع درد انگریزی ادویات (ڈکلوفینک سوڈئیم، ڈکلوفینک پوٹاشئیم، آئیبو پروفین، انڈو میتھاسون، فینائل بیٹازون، کوٹیزون، اسپرین) اور کیمو تھراپی کے لئیے استعمال ہونے والی ادویات۔ انگریزی ڈاکٹر صاحبان دافع درد ادویات کے ساتھ احتیاطاً رینیٹیڈین، زینیٹیڈین اور اومپرازول استعمال کرواتے ہیں اس کا مقصد مریض کو ان ادویات کہ ممکنہ خطرات سے بچانا ہوتا ہے جو کہ معدہ کی تکایف کی صورت میں ہوتا ہے۔ ۔ جنسی ہارمون اور کورٹی سون کا استعمال السر پیدا کرسکتا ہے۔

شراب نوشی‘ تمباکونوشی اور تفکرات کے علاوہ صدمات بھی السر پیدا کرتے ہیں۔ جیسے کہ خطرناک نوعیت کے حادثات‘آپریشن‘ جل جانے اور دل کے دورہ کے بعد اکثر لوگوں کو السر ہوجاتا ہے۔ میں خود اس حالت میں مبتلا رہ چکا ہوں۔ اس کی توضیح یہ ہے کہ صدمات چوٹ اور دہشت کے دوران جسم میں ایک ہنگامی مرکب ہسٹامین پیدا ہوتا ہے یہ وہی عنصر ہے جو جلد پر حساسیت کا باعث ہوتا ہے۔ یقین کیا جارہا ہے کہ اس کی موجودگی یا زیادتی معدہ میں السر کا باعث ہوتی ہے۔ اسی مفروضہ پر عمل کرتے ہوئے السر کی جدید دواؤں میں سے سیمیٹیڈٰن بنیادی طور پر ہسٹامین کو بیکار کرتی ہے اور یہی اس کی افادیت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ ایسی خوراک جس میں ریشہ نہ ہو۔ جیسے کہ خوب گلا ہوا گوشت۔ چھنے ہوئے سفید آٹے کی روٹی السر کی غذائی اسباب ہیں۔

اکثر اوقات السر خاندانی بیماری کے طور پر بھی ظاہر ہوتا ہے۔ آپس میں خونی رشتہ رکھنے والے متعدد افراد اس میں بیک وقت مبتلا ہوجاتے ہیں۔ اس کا یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ ان میں تکلیف وراثت میں منتقل ہوتی ہے یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے بودوباش کا اسلوب‘ کھانا پینا یا عادات ایک جیسی تھیں۔ اس لیے ان کو السر ہونے کے امکانات دوسروں سے زیادہ رہے50فیصدی مریضوں کو السر معدہ کے اوپر والے منہ کے قریب ہوتا ہے وہ اسباب جو معدہ میں زخم پیدا کرتے ہیں وہ بیک وقت ایک سے زیادہ السر بھی بنا سکتے ہیں لیکن 90فیصدی مریضوں میں صرف ایک ہی السر ہوتا ہے۔ جبکہ 10-15فیصدی میں ایک سے زیادہ ہوسکتے ہیں۔

اس پر حکمأ اور معالجین متفق ہیں کہ السر کے متعدد اقسام جلد یا بدیر کینسر میں تبدیل ہو جاتی ہیں کیونکہ اس کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ بروقت علاج نہ ہونے پر یہ پھٹ جاتا ہے، عموماً مریض کو اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے جب قے کے ساتھ خون آنا شروع ہو جاتا ہے۔ اس کے پھٹنے میں شراب نوشی، سگریٹ نوشی اور دافع درد ادویات کا اہم کردار ہوتا ہے۔

السر کی تمام پیچیدگیاں خطرناک ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی بھی علامت یا پچید گی جان لیوا بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ السر کا مریض زندگی سے مایوس، پریشان و بے چین اور اعصابی تناؤ کا شکار رہتا ہے، میرا ذاتی تجربہ ہے کہ لمبی چوڑی تنخواہوں اور وی آئی پی کلچر میں رہنے والوں کو جب یہ بیماری لاحق ہوئی تو صحت کے ساتھ ساتھ سب کچھ برباد اور تباہ ہو گیا۔ اس مختصر مضمون میں معدہ کے امراض کے اسباب و علاج مکمل لکھنا ممکن نہیں، آگہی اور علاج میں معاونت مقصود ہے۔ جس کسی کو بھی یہ تکلیف محسوس ہو اسے چاہیئے کہ فی الفور کسی مستند طبیب سے رجوع کرے۔ آپ کے آس پاس میں بہت سارے نیم حکیم آپ کو ملیں گے، تعویذ اور دم والوں کی بھی بھرمار ہو گی مگر یاد رکھیں علاج کروانے کی ترغیب ہمیں اسلام اور پیغمبر اسلام ﷺ نے دی ہے۔ اس علاج میں کچھ میڈیکل ٹیسٹ بھی کروانے پڑتے ہیں۔ اس لئیے کسی منجھے ہوئے حکیم یا ڈاکٹر سے مشورہ کریں، دم اور تعویذ کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت برباد نہ کریں ۔ اولیأ کاملین کی دعا اثرات سے بھرپور ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے۔

امراض معدہ کا آسان علاج:
میری عادت ہے کہ میں انٹرنیٹ یا اخباری مضامین میں کوئی نسخہ یا علاج نہیں لکھتا کیونکہ اگر پڑھنے والے کی سمجھ میں نہ آئے تو نسخہ کی ترکیب و استعمال کے غلط ہو جانے سے زبردست نقصان کا اندیشہ موجود ہوتا ہے۔ عمومی طور پر میں میڈیا کے ذریعہ نسخہ جات کی بجائے خواراک سے علاج کو ترجیح دیتا ہوں۔ یہاں کچھ علامات کے ساتھ آسان علاج پیش کرتا ہوں تاہم گذارش ہے کہ اگر کسی کی سمجھ میں نہ آئے تو اس وقت تک استعمال نہ کرے جب تک مجھ سے یا کسی اچھے طبیب سے مشاورت نہ کر لیں۔

نسخہ نمبر1:
اگر سر میں درد رہتا ہے، پاخانہ وقتِ مقررہ یا معمول میں نہیں ہے، نیند کی زیادتی ہے تو کسی اچھے دواخانے کی بنی ہوئی اطریفل زمانی ناشتہ کے بعد ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ کھائیں۔ رات سونے سے قبل چار عدد انجیر نیم گرم دودھ کے ساتھ۔ صبح نہار منہ زیادہ سے زیادہ تازہ پانی پئیں۔

نسخہ نمبر 2:
اگر سر میں درد، جسم میں تھکاوٹ کمزوری، قبض اور پاخانہ درد وجلن کے ساتھ ہو یعنی بواسیر کی علامات ظاہر ہو رہی ہوں یا پاخانہ میں خون خارج ہوتا ہو تو جوارش جالینوس ایک چھوٹا چمچ رات کے کھانے کے بعد پانی کے ساتھ، جوارش کمونی ناشتہ کے بعد ایک چھوٹا چمچ پانی کے ساتھ۔ چار عدد انجیر دوپہر کے کھانے کے بعد نیم گرم دودھ کے ساتھ۔ مدت علاج دو مہینے۔
نسخہ نمبر 3:
معدہ کی تکالیف کی وجہ سے نظر اور دماغ کمزور ہو گیا ہو، قبض کا احساس ہو اور کھانا ہضم نہ ہوتا ہو، سر میں درد، چکر ، آدھے سر کا درد ہو تو ایسی علامات میں شربتِ فولاد دو چمچ صبح شام، اطریفل اسطخودوس رات میں ایک چھوٹا چمچ، مربہ ہریڑ چار عدد نیم گرم دودھ کے ساتھ رات میں۔ مدت علاج دو ماہ۔
نسخہ نمبر 4:
اگر سینہ میں جلن، تبخیر، قے اور معدہ میں درد کا احساس ہو تو یہ علامات بنیادی طور پر السر کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اس کی تشخیص براہِ راست مشاورت اور چیک اپ کے بغیر نا ممکن ہے۔ اس لئیے اپنے طبیب سے ضرور ملیں۔ کچھ مفید تراکیب و علاج یہ ہیں کہ ایسے مریض کو ہلدی کے زیرو سائز کیپسول بنا کر دیں، دو کیپسول صبح شام پانی کے ساتھ۔ زیادہ سے زیادہ مائع خوراک بشکل دودھ، جوس اور صاف پانی دیں۔ میٹھا اور ترش چیزوں سے پرہیز۔

پرہیز:
معدہ کی بیماریوں میں مبتلا تمام مرد و عورتیں ہر قسم کی ترش کھٹی ، گھی، مرچ مسالہ، گوشت اور بازاری خوارک سے بچیں۔ فاسٹ فوڈ کو خود کے لئیے حرام سمجھیں۔ سگریٹ نوشی کسی زہرِ قاتل سے کم نہیں۔ شادی شدہ خواتین و حضرات جنسی عمل میں اعتدال برتیں۔
خوراک:
نہار منہ صاف تازہ پانی، ٹھنڈا دودھ، جوس، پھل، ہرے پتے والی سبزی، ریشہ دار غذائیں، انجیر اور ہریڑ کا استعمال کریں۔

شوگر اور صحتمند زندگی

شوگر کے مریضوں کے لیے غذائی حکمت عملی یہ ہے کہ انہیں بہر طور متوازن غذا ملے اور متوازن غذا کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کاربو ہائیڈریٹس، پروٹین، چکنائی، وٹامنز، معدنی اجزاء وغیرہ کی مناسب مقدار یقینی طور پر روزانہ ملتی رہے۔ علاوہ ازیں غذائی حکمت عملی کے تحت انہیں اس قدر کیلوریز ملتی رہیں ، جومتعلقہ فرد کی عمر، جنس اور روز مرہ جسمانی سرگرمیوں کے مطابق ہو۔ شوگر کے مریضوں کی غذا میں ردو بدل بنیادی طور پر کاربوہائیڈریٹس کے روزانہ حصوں میں کیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کی مطلوبہ مقدار دن بھر کے کھانے میں اس طرح مساوی تقسیم ہو کہ مریض کے میٹا بولک نظام پر بھی بوجھ نہ پڑے اور گلوکوز کی ضروری مقدار میں بھی کمی نہ آئے۔ معمول کے مطابق جب ہم کاربوہائیڈریٹس ہضم کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ ٹوٹ پھوٹ کر گلوکوز میں تبدیل ہوتے ہیں اور پھر دماغ اور جسم کے دیگر حصول

کے استعمال میں آتے ہیں۔ اضافی کاربوہائیڈریٹس کو گلائی کو جن میں تبدیل کرکے بعد میں استعمال میں لانے کے لیے جسم ذخیرہ کرلیتا ہے۔