شوگر کے مریضوں کے
لیے غذائی حکمت عملی یہ ہے کہ انہیں بہر طور متوازن غذا ملے اور متوازن غذا
کا مطلب یہ ہے کہ انہیں کاربو ہائیڈریٹس، پروٹین، چکنائی، وٹامنز، معدنی
اجزاء وغیرہ کی مناسب مقدار یقینی طور پر روزانہ ملتی رہے۔
علاوہ ازیں غذائی حکمت عملی کے تحت انہیں اس قدر کیلوریز ملتی رہیں ،
جومتعلقہ فرد کی عمر، جنس اور روز مرہ جسمانی سرگرمیوں کے مطابق ہو۔ شوگر
کے مریضوں کی غذا میں ردو بدل بنیادی طور پر کاربوہائیڈریٹس کے روزانہ حصوں
میں کیا جاتا ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ان کی مطلوبہ مقدار
دن بھر کے کھانے میں اس طرح مساوی تقسیم ہو کہ مریض کے میٹا بولک نظام پر
بھی بوجھ نہ پڑے اور گلوکوز کی ضروری مقدار میں بھی کمی نہ آئے۔ معمول کے
مطابق جب ہم کاربوہائیڈریٹس ہضم کرتے ہیں تو سب سے پہلے وہ ٹوٹ پھوٹ کر
گلوکوز میں تبدیل ہوتے ہیں اور پھر دماغ اور جسم کے دیگر حصول
کے استعمال میں آتے ہیں۔ اضافی کاربوہائیڈریٹس کو گلائی کو جن میں تبدیل کرکے بعد میں استعمال میں لانے کے لیے جسم ذخیرہ کرلیتا ہے۔
شوگر کے مریض کاربو ہائیڈریٹس کو اس طرح استعمال میں لانے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ اس عمل کے لیے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے اور شوگر کے مریض مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کررہے ہوتے۔ چنانچہ ایسے مریضوں کے خلیے گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر کسی ایک کھانے میں کاربو ہائیڈریٹس زیادہ مقدار میں کھا لیے جائیں تو بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے اور کچھ گلوکوز پیشاب میں خارج ہونے لگتا ہے۔
شوگر کے مریضوں کے کھانوں میں ایسی غذائیں شامل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے جو کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار پر مشتمل نہ ہوں۔ کاربوہائیڈریٹس سادہ یا پیچیدہ اقسام کے ہوتے ہیں لیکن تمام کاربوہائیڈریٹس ایک، دو یا مختلف شوگر مالیکیولز سے بنے ہوتے ہیں۔ ان مالیکیولز کا باہمی تعلق جتنا چھوٹا ہوتا ہے وہ اسی تیزی سے جسم میں جذب ہوجاتے ہیں۔ پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کے مالیکیولز آپس میں لمبے تعلق سے جڑے ہوتے ہیں چنانچہ ان کی ٹوٹ پھوٹ اور انجذاب سادہ کاربوہائیڈریٹس کے برعکس آہستہ، سست اور بتدریج ہوتا ہے۔ چونکہ یہ کاربوہائیڈریٹس اپنے شکری اجزاء خون میں آہتہ آہستہ شامل کرتے ہیں اس لیے انگریزی میں انہیں ‘‘سلو ریلیزنگ’’ کاربوہائیڈریٹس کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس سادہ کاربوہائیڈریٹس کو ہضم ہونے میں بہت کم وقت لگتا ہے اور وہ تیزی سے گلوکوز میں تبدیل ہوجاتے ہیں چنانچہ ان کے استعمال سے بلڈ گلوکوز لیول تیزی سے بڑھجاتاہے۔ اسی لیے انہیں ، فاسٹ ریلیزنگ کاربوہائیڈریٹسکہتے ہیں۔
شوگر کے مریضوں میں گلوکوز کے انجذاب کانظام خلل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے متعلقہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ‘‘سلو ریلیزنگ’’ یا پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس روز مرہ غذاؤں میں دیے جاتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے انہیں فاسٹ ریلیزنگ یا سادہ کاربوہائیڈریٹس سے دور رکھا جاتا ہے۔
کوئی ایک غذا فاسٹ ریلیزنگ ہے یا سلو ریلیزنگ، اس بات کا انحصار متعدد دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ شوگر کی اس قسم پر بھی ہے جو اس غذا میں پائی جاتی ہے۔ اس میں موجود غذائی ریشہ شوگر کے اخراج کو سست بنا دیتا ہے۔ چنانچہ یہی خوبی مکمل غذاؤں کو پسی ہوئی غذاؤں کی نسبت بہتر انتخاب بناتی ہے۔ تازہ پھل جن میں غذائی ریشہ بھی ہوتا ہے اسی لیے جوسز کی نسبت بہتر غذا قرار دیے جاتے ہیں۔ پروٹین کی موجودگی بھی غذاؤں کو گلائی کیمک انڈیکس میں کم اسکور دلاتی ہے۔ مسور اور دیگر دالوں کے ساتھ ساتھ پھلیاں بھی پروٹین اور ریشہ رکھتی ہیں۔ مختصر ترین بات یہ ہے کہ شوگر کے مریض کو درپیش پیچیدگیاں غذائی حکمت عملی سے روکی یا کم از کم قابو میں رکھیجاسکتیہیں۔
غذائی منصوبہ یا حکمت عملی کا انحصار مرض کے ٹائب پر ہے۔ ٹائپ1 کے مریض کو انسولین کا انجیکشن لینا پڑتا ہے۔ اس لیے مطلوبہ انسولین کی مقدار اور قسم آپ کی رہنمائی کرتی ہیں کہ کس طرح غذائیں روز مرہ کے کھانوں میں شامل کی جائیں۔ اس کے برعکس ٹائپ 2 کے مریض کی خوراک اتنی احتیاط کا تقاضا نہیں کرتی۔ چنانچہ غذائی حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے شوگر کے مرض کا ٹائپ مدنظر رکھا جائے۔
شوگر اور ڈپریشن
شوگر کو کنٹرول کرنے میں کئی دشواریاں اور رکاوٹیں آتی ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک منظم طریقہ علاج ،جس میں حیاتیاتی ، سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو مریض اور معالج کی پریشانی میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ شوگر ایک مزمن بیماری ہے جس میں مبتلا ہو کر مریض کو تا آخر عمر ادویات کا استعمال کرنے کے علاوہ باقاعدہ آزمائشات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری جسم کے ہر ریشہ اور خلیہ کو چیلنج کرتی ہے۔
اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد مریض کی زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے، اس کی جسمانی، ذہنی اور نفسیانی صحت پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کے لیے عمر بھر ڈھیر ساری دوائیاں، غذائی پابندیاں ، اضافی ورزش ، بار بار ٹیسٹ کرنا ، بار بار ڈاکٹروں کے پاس حاضری دینا جیسے مسائل بوجھ بن جاتے ہیں ۔مریض کے لیے ایک اور چیلنج یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ ساری تبدیلیاں اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میں شامل کرنا پڑتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں پر مریض کے خاندانی پس منظر ، سماجی، اقتصادی و نفسیاتی حالات کا گہرااثرپڑتا ہے ۔
شوگر کے کامیاب علاج کے لئے ضروری ہے کہ معالج مریض کے نفسیاتی پہلوؤں پر نظر رکھے۔ اگر علاج کے دوران ان پہلوؤں کا فہم نہیں ہے تو معالج اور مریض دونوں نا امیدی ،پریشانی ، ذہنی دباؤ، بے ترتیبی ، غصہ اور تھکاوٹ کے شکار ہو سکتے ہیں۔ ان علامات سے یہ احساسِ کہ‘‘ کچھ نہیں ہو سکتا ہے ’’ کا غلبہ ہوسکتا ہے اور یہ احساس معالج اور مریض کے حرکات و سکنات، آنکھوں کے اشاروں یا غیر مبہم الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ اکثر مریض اس موڑ پر شدید ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
شوگر میں مبتلا مریض اپنی بیماری کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
Z….مجھے نہیں لگتا کہ مجھے میری بیماری کے متعلق درست معلومات دی گئی ہیں، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ بیماری کیوں ہوتی ہے اور اس کی علامات کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ کسی بھی ڈاکٹر نے میری پوری بات نہیں سنی۔ میں سخت پریشان ہوں …!
Z….میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کھاؤں اور کیا نہیں کھاؤں۔ میں پریشان رہتی ہوں۔ مکمل پرہیز کے باوجود بھی میری شوگر کنٹرول نہیں ہورہی ہے۔ ڈاکٹروں کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں …خدا جانے میراکیاہوگا۔
Z….میں شوگر کے لیے گیارہ برس سے دوائیاں لے رہا ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ میں ڈپریشن میں مبتلاہوں۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کبھی پوچھا ہی نہیں کہ میری ذہنی حالت کیسی ہے ۔ وہ صرف شوگر کے لیے دوائیاں لکھتا ہے ۔ دوسری بات سننے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
Z….اپنی بیماری کے متعلق سوچنے سے کیا فائدہ، جو ہونا ہو گا، وہ ہو کے رہے گا ۔ میں کیا کر سکتا ہوں، میرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ دوائیاں اب بے اثر ہو گئی ہیں، مجھے کچھ اور سوچنا چاہئے ۔
Z….میں کچھ بھی نہیں کھاتا ہوں، پھر بھی میرا شوگر لیول نارمل نہیں رہتا ،میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ چیخوں چلاؤں مگر ….
Z….میں ورزش کیسے کروں، میرے تو دونوں گھٹنے کمزور ہیں،تھوڑی دیر ورزش کرنے کے بعد ان میں شدید درد ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر میری بات سمجھتا ہی نہیں، صرف دوائیاں لکھتا ہے۔
Z….میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ شوگر کنٹرول کرنا ہے۔ پرہیز اور ورزش کرنا بہت مشکل ہے ،میرا شوگر کبھی اوپر کبھی نیچے ہوتا، میں اتنا تنگ آ چکا ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ کہیں میں خود کشی ….
Z….میں شوگر کی وجہ سے چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ یہ میں کس سے کہوں ، ڈاکٹر میری بات سنتا ہی نہیں، آج کل میرا شوگر بھی آوٹ آف کنٹرول ہے، میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں ….
Z….میں ہر وقت پریشان اور بے قرار رہتی ہوں،کسی کام میں میرا دل نہیں لگتا ہے ، میں ہر وقت رونا چاہتی ہوں۔ ڈاکٹر صرف شوگر کے لئے دوائیاں لکھ کر پکڑا دیتے ہیں۔ میری بات غور سے سنتے ہی نہیں….میں کیا کروں۔
مریضوں کی ان باتوں سے ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر مریضوں کو نفسیاتی مسائل در پیش ہیں اور ان کے معالج اس طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ شوگر کنٹرول کرنے میں درج ذیل عوامل رکاوٹ بنتے ہیں ۔
Zڈپریشن میں مبتلا ہونا
Z….بیماری کے متعلق مکمل علم نہ ہونا
Z….علاج و معالجہ کے اخراجات کا بوجھ
Z….ٹرانسپورٹ سہولیات کا میسر نہ ہونا
Z….ڈاکٹروں کی لا پرواہی اور عدم توجہی
Z….ڈاکٹروں کے پاس وقت کی کمی
ڈپریشن شوگر کنٹرول کرنے میں آہنی دیوار بن کے کھڑا ہو جاتی ہے ۔ ڈپریشن اور شوگر دو طرفہ مسئلہ ہے ۔ شوگر کا ڈپریشن کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ ایسے افراد جو طویل مدت تک ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا رہے ہوں، ان کے شوگر میں مبتلا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شوگر میں مبتلا اکثر افراد ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اس پہلو کی جانب کئی ڈاکٹر اور مریض بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اگر شوگر میں مبتلا مریض کی شوگر کنٹرول نہیں ہورہی ہے تو باقی وجوہات کو مد نظر رکھ کر ڈپریشن کی طرف بھی توجہ دینا بے حد ضروری ہے کیوں کہ ڈپریشن میں مبتلا مریضوں کا بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا ہے ۔
شوگر میں مبتلا اکثر مریضوں کو مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بہت سے مریضوں کو ہر قدم پر نفسیاتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب شوگر کا مریض ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ زندگی سے مایوس ہو نے لگتا ہے، اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ اپنی طرف کم توجہ دیتا ہے۔ وہ وقت پر دوائیاں نہیں لیتا ہے ،باقاعد ورزش نہیں کرتا ہے، پرہیز کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے، اس طرح اس کی بیماری بے قابو ہو جاتی ہے۔
کئی مریض اس کے لئے اپنے معالج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔اگر ڈپریشن کابر وقت صحیح اور پورا علاج نہ کیا گیا تو شوگر کی سطح بڑھتی رہے گی اور جب شوگر کی سطح بڑھتی رہے گی تو ڈپریشن کی علامات اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اس طرح مریض کے لیے مختلف پیچیدگیوں کا احتمال بڑھتا رہے گا۔
حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ شوگر کنٹرول کرنے میں ڈپریشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
اگر آپ شوگر میں مبتلاہیں اور پچھلے دو ماہ سے درج ذیل علامات محسوس کر رہے ہیں تو اپنے معالج یا ماہر نفسیات سے مشورہ کیجیے ۔
Z….اداسی ، مایوسی ، افسردگی ، پریشانی ، اضطراب،بے قراری ، دل کی دھڑکنوں میں بے اعتدالی ، نا امیدی ، روز مرہ کے کاموں میں دلچسپی کم ہو گئی ہے ، کمزوری ، جلدی تھک جانا ، کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا ہے ، خوشی محسوس نہیں ہو رہی ہے ، یاداشت میں خلل، نیند میں خلل ، روز مرہ کے کاموں میں توجہ مرکوز کرنے میں نا کامی ، باربار آنکھوں میں آنسو آتے ہیں، سینے پر دباؤ، بھوک نہیں لگتی ہے ، اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگی ہے ، اکیلا پن محسوس ہونے لگا ہے ، یہ احساس کہ دوسرے آپ میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں ، زندگی بوجھ لگنے لگی ہے ، خود کشی کے خیالات آنے لگے ہیں ۔
ان علامات میں سے چار سے زائد علامات اگر ایک یا دو ماہ سے آپ کو ستا رہی ہیں تو آپ کو علاج اور کونسلنگ کی ضرورت ہے ۔
ڈپریشن کا علاج کروایئے تاکہ آپ کی شوگر قابو میں رہے اور آپ کی زندگی میں نئی بہار آئے ۔
کے استعمال میں آتے ہیں۔ اضافی کاربوہائیڈریٹس کو گلائی کو جن میں تبدیل کرکے بعد میں استعمال میں لانے کے لیے جسم ذخیرہ کرلیتا ہے۔
شوگر کے مریض کاربو ہائیڈریٹس کو اس طرح استعمال میں لانے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ اس عمل کے لیے انسولین کی ضرورت ہوتی ہے اور شوگر کے مریض مناسب مقدار میں انسولین پیدا نہیں کررہے ہوتے۔ چنانچہ ایسے مریضوں کے خلیے گلوکوز کو جذب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ اگر کسی ایک کھانے میں کاربو ہائیڈریٹس زیادہ مقدار میں کھا لیے جائیں تو بلڈ شوگر لیول بڑھ جاتا ہے اور کچھ گلوکوز پیشاب میں خارج ہونے لگتا ہے۔
شوگر کے مریضوں کے کھانوں میں ایسی غذائیں شامل کرنے پر توجہ دی جاتی ہے جو کاربوہائیڈریٹس کی زیادہ مقدار پر مشتمل نہ ہوں۔ کاربوہائیڈریٹس سادہ یا پیچیدہ اقسام کے ہوتے ہیں لیکن تمام کاربوہائیڈریٹس ایک، دو یا مختلف شوگر مالیکیولز سے بنے ہوتے ہیں۔ ان مالیکیولز کا باہمی تعلق جتنا چھوٹا ہوتا ہے وہ اسی تیزی سے جسم میں جذب ہوجاتے ہیں۔ پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس کے مالیکیولز آپس میں لمبے تعلق سے جڑے ہوتے ہیں چنانچہ ان کی ٹوٹ پھوٹ اور انجذاب سادہ کاربوہائیڈریٹس کے برعکس آہستہ، سست اور بتدریج ہوتا ہے۔ چونکہ یہ کاربوہائیڈریٹس اپنے شکری اجزاء خون میں آہتہ آہستہ شامل کرتے ہیں اس لیے انگریزی میں انہیں ‘‘سلو ریلیزنگ’’ کاربوہائیڈریٹس کہا جاتا ہے۔ ان کے برعکس سادہ کاربوہائیڈریٹس کو ہضم ہونے میں بہت کم وقت لگتا ہے اور وہ تیزی سے گلوکوز میں تبدیل ہوجاتے ہیں چنانچہ ان کے استعمال سے بلڈ گلوکوز لیول تیزی سے بڑھجاتاہے۔ اسی لیے انہیں ، فاسٹ ریلیزنگ کاربوہائیڈریٹسکہتے ہیں۔
شوگر کے مریضوں میں گلوکوز کے انجذاب کانظام خلل کا شکار ہوجاتا ہے۔ اس لیے متعلقہ پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے انہیں ‘‘سلو ریلیزنگ’’ یا پیچیدہ کاربوہائیڈریٹس روز مرہ غذاؤں میں دیے جاتے ہیں۔ جہاں تک ممکن ہوتا ہے انہیں فاسٹ ریلیزنگ یا سادہ کاربوہائیڈریٹس سے دور رکھا جاتا ہے۔
کوئی ایک غذا فاسٹ ریلیزنگ ہے یا سلو ریلیزنگ، اس بات کا انحصار متعدد دوسرے عوامل کے ساتھ ساتھ شوگر کی اس قسم پر بھی ہے جو اس غذا میں پائی جاتی ہے۔ اس میں موجود غذائی ریشہ شوگر کے اخراج کو سست بنا دیتا ہے۔ چنانچہ یہی خوبی مکمل غذاؤں کو پسی ہوئی غذاؤں کی نسبت بہتر انتخاب بناتی ہے۔ تازہ پھل جن میں غذائی ریشہ بھی ہوتا ہے اسی لیے جوسز کی نسبت بہتر غذا قرار دیے جاتے ہیں۔ پروٹین کی موجودگی بھی غذاؤں کو گلائی کیمک انڈیکس میں کم اسکور دلاتی ہے۔ مسور اور دیگر دالوں کے ساتھ ساتھ پھلیاں بھی پروٹین اور ریشہ رکھتی ہیں۔ مختصر ترین بات یہ ہے کہ شوگر کے مریض کو درپیش پیچیدگیاں غذائی حکمت عملی سے روکی یا کم از کم قابو میں رکھیجاسکتیہیں۔
غذائی منصوبہ یا حکمت عملی کا انحصار مرض کے ٹائب پر ہے۔ ٹائپ1 کے مریض کو انسولین کا انجیکشن لینا پڑتا ہے۔ اس لیے مطلوبہ انسولین کی مقدار اور قسم آپ کی رہنمائی کرتی ہیں کہ کس طرح غذائیں روز مرہ کے کھانوں میں شامل کی جائیں۔ اس کے برعکس ٹائپ 2 کے مریض کی خوراک اتنی احتیاط کا تقاضا نہیں کرتی۔ چنانچہ غذائی حکمت عملی مرتب کرتے ہوئے شوگر کے مرض کا ٹائپ مدنظر رکھا جائے۔
شوگر اور ڈپریشن
شوگر کو کنٹرول کرنے میں کئی دشواریاں اور رکاوٹیں آتی ہیں جن کی وجہ سے بعض اوقات ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی پریشان ہو جاتے ہیں۔ شوگر کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک منظم طریقہ علاج ،جس میں حیاتیاتی ، سماجی اور نفسیاتی پہلوؤں کو مد نظر رکھا جائے تو مریض اور معالج کی پریشانی میں نمایاں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ شوگر ایک مزمن بیماری ہے جس میں مبتلا ہو کر مریض کو تا آخر عمر ادویات کا استعمال کرنے کے علاوہ باقاعدہ آزمائشات سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہ بیماری جسم کے ہر ریشہ اور خلیہ کو چیلنج کرتی ہے۔
اس بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد مریض کی زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوتا ہے، اس کی جسمانی، ذہنی اور نفسیانی صحت پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کے لیے عمر بھر ڈھیر ساری دوائیاں، غذائی پابندیاں ، اضافی ورزش ، بار بار ٹیسٹ کرنا ، بار بار ڈاکٹروں کے پاس حاضری دینا جیسے مسائل بوجھ بن جاتے ہیں ۔مریض کے لیے ایک اور چیلنج یہ ہوتا ہے کہ اسے یہ ساری تبدیلیاں اپنی روز مرہ زندگی کے معمولات میں شامل کرنا پڑتی ہیں ۔ ان تبدیلیوں پر مریض کے خاندانی پس منظر ، سماجی، اقتصادی و نفسیاتی حالات کا گہرااثرپڑتا ہے ۔
شوگر کے کامیاب علاج کے لئے ضروری ہے کہ معالج مریض کے نفسیاتی پہلوؤں پر نظر رکھے۔ اگر علاج کے دوران ان پہلوؤں کا فہم نہیں ہے تو معالج اور مریض دونوں نا امیدی ،پریشانی ، ذہنی دباؤ، بے ترتیبی ، غصہ اور تھکاوٹ کے شکار ہو سکتے ہیں۔ ان علامات سے یہ احساسِ کہ‘‘ کچھ نہیں ہو سکتا ہے ’’ کا غلبہ ہوسکتا ہے اور یہ احساس معالج اور مریض کے حرکات و سکنات، آنکھوں کے اشاروں یا غیر مبہم الفاظ سے واضح ہوتا ہے۔ اکثر مریض اس موڑ پر شدید ڈپریشن میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں ۔
شوگر میں مبتلا مریض اپنی بیماری کے بارے میں کیا کہتے ہیں:
Z….مجھے نہیں لگتا کہ مجھے میری بیماری کے متعلق درست معلومات دی گئی ہیں، مجھے تو یہ بھی معلوم نہیں کہ یہ بیماری کیوں ہوتی ہے اور اس کی علامات کیا ہیں اور کیا نہیں ہیں۔ کسی بھی ڈاکٹر نے میری پوری بات نہیں سنی۔ میں سخت پریشان ہوں …!
Z….میری یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں کیا کھاؤں اور کیا نہیں کھاؤں۔ میں پریشان رہتی ہوں۔ مکمل پرہیز کے باوجود بھی میری شوگر کنٹرول نہیں ہورہی ہے۔ ڈاکٹروں کی باتیں میری سمجھ سے باہر ہیں …خدا جانے میراکیاہوگا۔
Z….میں شوگر کے لیے گیارہ برس سے دوائیاں لے رہا ہوں مگر مجھے لگتا ہے کہ میں ڈپریشن میں مبتلاہوں۔ ڈاکٹر نے مجھ سے کبھی پوچھا ہی نہیں کہ میری ذہنی حالت کیسی ہے ۔ وہ صرف شوگر کے لیے دوائیاں لکھتا ہے ۔ دوسری بات سننے کے لیے اس کے پاس وقت ہی نہیں ہے۔
Z….اپنی بیماری کے متعلق سوچنے سے کیا فائدہ، جو ہونا ہو گا، وہ ہو کے رہے گا ۔ میں کیا کر سکتا ہوں، میرے ہاتھ میں کیا ہے ۔ مجھے لگتا ہے کہ دوائیاں اب بے اثر ہو گئی ہیں، مجھے کچھ اور سوچنا چاہئے ۔
Z….میں کچھ بھی نہیں کھاتا ہوں، پھر بھی میرا شوگر لیول نارمل نہیں رہتا ،میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں، میرا جی چاہتا ہے کہ چیخوں چلاؤں مگر ….
Z….میں ورزش کیسے کروں، میرے تو دونوں گھٹنے کمزور ہیں،تھوڑی دیر ورزش کرنے کے بعد ان میں شدید درد ہونے لگتا ہے۔ ڈاکٹر میری بات سمجھتا ہی نہیں، صرف دوائیاں لکھتا ہے۔
Z….میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ شوگر کنٹرول کرنا ہے۔ پرہیز اور ورزش کرنا بہت مشکل ہے ،میرا شوگر کبھی اوپر کبھی نیچے ہوتا، میں اتنا تنگ آ چکا ہوں کہ مجھے لگتا ہے کہ کہیں میں خود کشی ….
Z….میں شوگر کی وجہ سے چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں۔ یہ میں کس سے کہوں ، ڈاکٹر میری بات سنتا ہی نہیں، آج کل میرا شوگر بھی آوٹ آف کنٹرول ہے، میں زندگی سے تنگ آ چکا ہوں ….
Z….میں ہر وقت پریشان اور بے قرار رہتی ہوں،کسی کام میں میرا دل نہیں لگتا ہے ، میں ہر وقت رونا چاہتی ہوں۔ ڈاکٹر صرف شوگر کے لئے دوائیاں لکھ کر پکڑا دیتے ہیں۔ میری بات غور سے سنتے ہی نہیں….میں کیا کروں۔
مریضوں کی ان باتوں سے ظاہر ہے کہ ان میں سے اکثر مریضوں کو نفسیاتی مسائل در پیش ہیں اور ان کے معالج اس طرف توجہ نہیں دیتے ہیں۔ ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ شوگر کنٹرول کرنے میں درج ذیل عوامل رکاوٹ بنتے ہیں ۔
Zڈپریشن میں مبتلا ہونا
Z….بیماری کے متعلق مکمل علم نہ ہونا
Z….علاج و معالجہ کے اخراجات کا بوجھ
Z….ٹرانسپورٹ سہولیات کا میسر نہ ہونا
Z….ڈاکٹروں کی لا پرواہی اور عدم توجہی
Z….ڈاکٹروں کے پاس وقت کی کمی
ڈپریشن شوگر کنٹرول کرنے میں آہنی دیوار بن کے کھڑا ہو جاتی ہے ۔ ڈپریشن اور شوگر دو طرفہ مسئلہ ہے ۔ شوگر کا ڈپریشن کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے۔ ایسے افراد جو طویل مدت تک ڈپریشن جیسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا رہے ہوں، ان کے شوگر میں مبتلا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں اور یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ شوگر میں مبتلا اکثر افراد ڈپریشن میں مبتلا ہوتے ہیں۔
اس پہلو کی جانب کئی ڈاکٹر اور مریض بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں۔ اگر شوگر میں مبتلا مریض کی شوگر کنٹرول نہیں ہورہی ہے تو باقی وجوہات کو مد نظر رکھ کر ڈپریشن کی طرف بھی توجہ دینا بے حد ضروری ہے کیوں کہ ڈپریشن میں مبتلا مریضوں کا بلڈ شوگر کنٹرول میں نہیں رہتا ہے ۔
شوگر میں مبتلا اکثر مریضوں کو مشاورت کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ بہت سے مریضوں کو ہر قدم پر نفسیاتی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
جب شوگر کا مریض ڈپریشن میں مبتلا ہو جاتا ہے تو وہ زندگی سے مایوس ہو نے لگتا ہے، اسے اپنے آپ سے نفرت ہونے لگتی ہے اور وہ اپنی طرف کم توجہ دیتا ہے۔ وہ وقت پر دوائیاں نہیں لیتا ہے ،باقاعد ورزش نہیں کرتا ہے، پرہیز کی طرف توجہ نہیں دیتا ہے، اس طرح اس کی بیماری بے قابو ہو جاتی ہے۔
کئی مریض اس کے لئے اپنے معالج کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں ۔اگر ڈپریشن کابر وقت صحیح اور پورا علاج نہ کیا گیا تو شوگر کی سطح بڑھتی رہے گی اور جب شوگر کی سطح بڑھتی رہے گی تو ڈپریشن کی علامات اور ان کی شدت میں اضافہ ہوتا جائے گا اور اس طرح مریض کے لیے مختلف پیچیدگیوں کا احتمال بڑھتا رہے گا۔
حالیہ تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ شوگر کنٹرول کرنے میں ڈپریشن سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔
اگر آپ شوگر میں مبتلاہیں اور پچھلے دو ماہ سے درج ذیل علامات محسوس کر رہے ہیں تو اپنے معالج یا ماہر نفسیات سے مشورہ کیجیے ۔
Z….اداسی ، مایوسی ، افسردگی ، پریشانی ، اضطراب،بے قراری ، دل کی دھڑکنوں میں بے اعتدالی ، نا امیدی ، روز مرہ کے کاموں میں دلچسپی کم ہو گئی ہے ، کمزوری ، جلدی تھک جانا ، کسی بھی کام میں دل نہیں لگتا ہے ، خوشی محسوس نہیں ہو رہی ہے ، یاداشت میں خلل، نیند میں خلل ، روز مرہ کے کاموں میں توجہ مرکوز کرنے میں نا کامی ، باربار آنکھوں میں آنسو آتے ہیں، سینے پر دباؤ، بھوک نہیں لگتی ہے ، اپنے آپ سے نفرت سی ہونے لگی ہے ، اکیلا پن محسوس ہونے لگا ہے ، یہ احساس کہ دوسرے آپ میں دلچسپی نہیں لیتے ہیں ، زندگی بوجھ لگنے لگی ہے ، خود کشی کے خیالات آنے لگے ہیں ۔
ان علامات میں سے چار سے زائد علامات اگر ایک یا دو ماہ سے آپ کو ستا رہی ہیں تو آپ کو علاج اور کونسلنگ کی ضرورت ہے ۔
ڈپریشن کا علاج کروایئے تاکہ آپ کی شوگر قابو میں رہے اور آپ کی زندگی میں نئی بہار آئے ۔
No comments:
Post a Comment